پہلی بار امریکی تجارتی شہر نیوآرلینز پہنچا۔
اتنا بڑا شہر اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا
شاندار عمارتیں اور ساحل پر لنگر انداز یہ بڑے بڑے بحری جہاز دیکھ کر وہ بہت متاثر ہو رہا تھا
کہ پھر اس کی آنکھوں سے ایک منظر ٹکرایا۔
پھر یہ منظر ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن کے دور دراز گوشوں میں پیوست ہو گیا۔
اس نے دیکھا کہ شہر کی مارکیٹ میں انسانوں کی خریدوفروخت ہور رہی ہے۔
انسانوں کو اجناس کی طرح خریدا اور بیچا جا رہا ہے۔
زنجیروں میں بندھے بے بس انسانوں کو بحری جہازوں سے اتارا اور چڑھایا جا رہا ہے۔
ظلم یہ تھا کہ نیوآرلینز کے بازاروں میں اشتہار لگے ہوتے کہ کس دن، کتنے بجے، کتنے انسانوں کی بولی لگے گی
اور ان میں کتنے مرد، بچے اور عورتیں ہوں گئی۔
یہ بھی لکھا ہوتا کہ خریدار کیش لے کر آئیں کیونکہ غلام بیچنے والی کمپنی ادھار پر ڈیل نہیں کرتی۔
ستم یہ تھا کہ یہ سارے کے سارے انسان، سیاہ فام تھے۔
سفید رنگ نے امریکہ میں کالے رنگ کو غلام بنا رکھا تھا۔
یہ دیہاتی نوجوان بازار میں بکتے انسان دیکھ رہا تھا،
اندر ہی اندر کڑھ رہا تھا، لیکن وہ کر کچھ بھی نہیں سکتا تھا
کیونکہ وہ تو خود ایک چھوٹی سی کشتی کا معمولی سا ملازم تھا۔
پھر بھی اس نے اپنے ساتھی سے کہا، اگر مجھے موقع ملا تو میں ہر قیمت پر یہ دھندا بند کرواؤں گا۔
یہ کہتے ہوئے اٹھارہ سال کا یہ دیہاتی اتنا بڑا خواب دیکھ چکا تھا
کہ جس کی تعبیر کے لیے اسے اپنے دور کا سب سے طاقتور انسان ہونا چاہیے تھا۔
اور دیکھئے کہ ایسا ہو بھی گیا
مگر کیسے؟
میں ہوں فیصل وڑائچ اور دیکھو سنو جانو کی منی سیریز ابراہم لنکن کون تھا کے پہلے حصے میں ہم آپ کو یہی کہانی دکھا رہے ہیں
یہ ہے دریائے سنگامون اور یہ اس کے کنارے بہت ہی چھوٹا سا خوبصورت قصبہ نیو سیلم۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں ابراہم لنکن نے جوانی کے ابتدائی چھے سال گزارے
اور یہیں زندگی کی بڑی بڑی ناکامیوں کے تمغے سینے پر سجائے۔
لیکن یہاں آنے سے پہلے وہ کون سا کامیاب انسان تھا۔
قسمت بھی اس کے ساتھ مسلسل کھیل رہی تھی۔
جب وہ صرف نو سال کا تھا تو اس کی ماں دودھ میں کسی زہریلی بوٹی کے مل جانے سے مر گئی تھی۔
پھر اس کا باپ سوتیلی ماں لے آیا
سوتیلی ماں سے اسے کوئی شکایت تو نہیں تھی، لیکن ابراہم کی اپنے باپ سے کبھی نہ بن پائی۔
بلکہ وہ اپنے باپ کو تو پسند ہی نہیں کرتا تھا۔
اس کا باپ بھی اسے طنز اور مارپیٹ کا نشانہ بناتا رہتا تھا۔
تعلیم بھی بس وہ اتنی ہی حاصل کر پایا تھا کہ لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔
بائبل اور شیکسپیر کی شاعری کے کچھ حصے بھی اس نے خود سےہی یاد کیے تھے۔
لیکن حساب کتاب جمع تفریق اس کی سمجھ میں بچپن سے نہیں آتا تھا۔
چہرے مہرے سے بھی وہ کوئی خوبرو انسان نہیں تھا۔
عجیب سے ناپسندیدہ قسم کے کٹس تھے اس کے چہرے پر۔
انگلش بھی وہ اچھی نہیں بول سکتا تھا، اس کے لہجے میں ایک اجڈ پن تھا۔
اس کی پوری شخصیت میں، پرسنیلٹی میں اگر کوئی چیز بہت قد آور تھی تو وہ اس کا قد ہی تھا۔
وہ چھ فٹ، چار انچ لمبا تھا اور یہی چیز اسے ہر جگہ مرکز نگاہ بنا دیتی تھی۔ اور اس کے بعد اس کی گفتگو۔
تو دوستو نیو سیلم میں یہ جو لکڑی کا کیبن آپ دیکھ رہے ہیں
اسی جگہ سے ابراہم لنکن نے اپنے کیرئیر کا بطور سٹور کیپر آغاز کیا تھا۔
اس بستی میں تھوڑے سے لوگ رہتے تھے بہت بھی ہوئے تو ایک سو ہوں گے۔
بس یہی اس کے گاہک تھے۔
باقی کچھ لوگ دریا میں سفر کرتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیےرکتے تو سٹور سے اکا دکا چیزیں خرید لیتے تھے۔
سٹور میں موم بتیاں، وائن کی چھوٹی بوتلیں اور کچھ برتن وغیرہ ہوتے تھے۔
لیکن ہائے مقدر کی ناکامیاں۔ لنکن جو بہتر کیرئیر کی تلاش میں یہاں آیا تھا چند ماہ بعد ہی کیئریر گنوا بیٹھا۔
کیونکہ سٹور کے مالک نے مسلسل گھاٹے کی وجہ سے سٹور بند کر دیا اور لنکن کو نوکری سے نکال دیا۔
اس کے سینے پر ذاتی کمائی ہوئی ناکامی کا پہلا بیج سج چکا تھا۔
نیو سیلم کے پہلے نو ماہ میں اگرچہ ابراہم لنکن ناکام رہا تھا لیکن ایک کامیابی اس نے حاصل کر لی تھی۔
وہ تھی آنیسٹ ایب، ایماندار انسان کی شہرت۔
ہوا یوں کہ ایک دن لنکن کے سٹور سے ایک خاتون کچھ سامان لے کر گئی۔
جب وہ چلی گئی اور لنکن نے غور کیا کہ اس کے وزن کے باٹ درست نہیں تھے۔
کچھ ہلکے تھے۔
سو لنکن نے یہ کیا کہ جتنا وزن کم تھا اتنا سامان لے کر اس عورت کے گھر گیا اور اسے دے آیا۔
یہ واقعہ اور اس طرح کے اور بہت سے واقعات پیش آئے
جنھوں نے نیو سیلم میں ابراہم لنکن کو آنیسٹ ایب، کا ٹائٹل دے دیا۔
اسی شہرت کے باعث لنکن نے اٹھارہ سو بتیس کے ریاستی الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔
اس کا خیال تھا کہ نیو سیلم بستی کے تمام لوگ تو اسے ووٹ دے ہی دیں گے
اور ساتھ میں اردگرد سے کچھ اورلوگ بھی اسے ووٹ دیں گئے اور وہ الانائے کی ریاستی اسمبلی کا رکن بن جائے گا۔
لیکن ہوا یہ کہ وہ اپنی اچھی ساکھ کے باوجود ہار گیا۔
یہ ذاتی کمائی ہوئی ناکامی کا دوسرابیج تھا جو اس کے سینے پر لگا تھا۔
لیکن فکر کاہے کی، چھے فٹ چار انچ کے انسان کے سینے پر ابھی بہت جگہ تھی اس قسم کے اور بیج لگ سکتے تھے۔
پہلا الیکشن ہارنے کے بعد تئیس سالہ لنکن خالی جیب، بھوکے پیٹ تھا۔
زندگی آگے چلانے کے لیے اس نے اپنی طاقت کا استعمال کیا اور لکڑیاں کاٹنے کی مزدوری کرنے لگا۔
پھر کسی نے مشورہ دیا کہ ڈاکیا بن جاؤ، اچھے پیسے کماؤ گے، سو وہ ڈاکیا بن گیااور گھر گھر خط پہنچانے لگا۔
یہاں بھی دال نہ گلی تو سروے کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو کر سروے کرنے لگا۔
مگر یہ روزگار بھی اس کی ضروریات اور مزاج کے مطابق نہیں تھا
پھر اس نے اپنے قد کاٹھ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نیو سیلم کے ریسلنگ چیمپئن کو چیلنج کر دیا۔
لیکن یہاں بھی وہ جیت نہ سکا۔
ایسا بھی کہتے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر ہار گیا تھا۔ تا کہ ریسلنگ چیمپئن اور اس کے دوستوں کی ہمدردی حاصل کر سکے۔
اور دیکھئے کہ اس نے یہ ہمدردیاں جیت بھی لیں۔
یہ لڑکے اور ریسلنگ چیمپن آرمسٹرانگ اس کے گہرے دوست بن گئے اور مستقبل کے سیاسی میدان میں اس کے بہت کام آئے۔
لیکن دوستی سے پیٹ تو نہیں بھرتا تھا ناں۔
ہاں پارٹنرشپ ہو سکتی تھی۔
سو اس نے اپنے ایک دوست ویلیم بیری کے ساتھ مل کر بیری لنکن سٹور کھول لیا۔
تھوڑی بہت فروخت ہونے لگی تو اس نے ایک بار پھر سیاست میں ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دئیے۔
اٹھارہ سو چونتیس میں ریاستی اسمبلی کا الیکشن ہوا اور اس بار وہ جیت گیا۔
ناکامیوں سے بھرپور اس زندگی میں یہ اس کی پہلی کامیابی تھی۔
لیکن یہ کامیابی اس کے روزگار کے مسئلے کو تو پھر بھی حل نہیں کر پا رہی تھی۔
اسمبلی کا اجلاس جس دن ہوتا اس دن اسے تین ڈالر مل جاتے تھے اور بس۔
پھر سیاست میں متحرک ہو جانے کی وجہ سے وہ اپنے سٹور کو بالکل وقت نہیں دے پا رہا تھا۔
اب اگلا سال اٹھارہ سو پینتیس اس کی زندگی کا دردناک سال ثابت ہوا۔
پہلے تو اس کا سٹور پارٹنر اور گہرا دوست ویلیم ہیری مر گیا۔
پھر سٹور بھی بند ہو گیا۔
جب سٹور بند ہوا تو سٹور پر اٹھارہ سو ڈالر کا قرض چڑھ چکا تھا۔
اس دور کے حساب سے یہ ایک بڑی رقم تھی جسے اتارتے اتارتے لنکن کو پندرہ سال لگ گئے۔
وہ اس قرض کو مذاق میں قومی قرضہ کہا کرتا تھا۔
لیکن قرض اور بیری کی موت سے بھی گہرا ایک زخم این رَٹلیجز سے اسے ملا۔
این نیو سیلم کی وہ لڑکی تھی جس سے لنکن اپنے سٹور میں ملا تھا۔
این اتنی خوبصورت تھی کہ لنکن اسے دیکھتے ہی چاہنے لگا تھا۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ لڑکی کسی اور سے شادی کا وعدہ کر چکی تھی۔
ماہرین نفسیات کے مطابق اگر ایک بار کسی کو کسی سے محبت ہو جائے تو پھر واپسی کا راستہ مشکل ہوتا ہے۔
سو لنکن سٹور میں اور سٹور کے باہر اس سے گھنٹوں باتیں کرنے لگا۔
دونوں دریا کے کنارے پرملتے بھی رہے۔
مگر ٹریجیڈی یہ ہوئی کہ اسی سال ٹائی فیڈ کی وبا پھیلی اور این رَٹلیجز بخار میں تپ کر مر گئی۔
یہ جہاں آج یادگاری بورڈ لگا ہے یہاں این کا وہ کیبن تھا جس میں لنکن اس سے آخری بار ملا تھا۔
اور اسی یادگاری بورڈ پر لکھا ہے کہ قریب ہی ایک برگد کا درخت تھا
جس کے نیچے لنکن اس کی موت پربری طرح روتا رہا تھا۔
قدرت نے ایک ہی سال میں ناکامی کے تین بیج اس کے سینے پر پیوست کر دئیے تھے جن میں سے ایک تو کچھ زیادہ ہی گہرا تھا۔
لنکن جب تک زندہ رہا کئی بار این کی قبر پر آتا رہا۔
این اور ویلیم بیری کی موت کے دو سال بعد اس نے سامان پیک کیا،
اپنے دوستوں سے گلے ملا اور نیو سیلم کی بستی کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ کر قریبی شہر سپرنگ فیلڈ میں چلا گیا۔
ویسے بھی اس کی جوانی کی امیدوں کی بستی نیو سیلم اب ختم ہو رہی تھی۔
کیونکہ یہ بستی صرف اس لیے بسائی گئی تھی کہ دریائے سنگامون سے سٹیم بوٹس گزریں گی اور یہ علاقہ راستے کی تجارتی منڈی بن جائے گا۔
لیکن دریائے سنگامون میں صفائی نہ ہو پانے کے باعث سٹیم بوٹس چل نہ سکیں۔
یہ چھوٹا سا قصبہ لنکن کے جانے کے تیسرے سال ہی ختم ہو گیا۔
لنکن پھر کبھی پلٹ کر نیو سیلم نہیں آیا۔ ہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ کبھی کبھی این رٹلیجز کی قبر پر آیا کرتا تھا۔
لنکن سپرنگ فیلڈ آیا تو اس کی دنیا ہی بدل گئی۔
وہ سپرنگ فیلڈ میں وکالت کرنے لگا، اچھے پیسے کمانے لگا اور اپنا قرض بھی آہستہ آہستہ اتارنے لگا۔
اور تو اور اس کی ایک بہت بڑے رئیس خاندان کی لڑکی میری ٹاڈ سے محبت کی شادی بھی ہو گئی۔
یہیں سے ایک بار وہ امریکی ایوان نمائندگان کا رکن بن کر واشنگٹن بھی دو سال رہ آیا۔
لیکن اس سب کچھ میں اس کے لیے جلد ہی کشش ختم ہو گئی۔
کیونکہ وہ اپنے زندگی کے شروع میں دیکھے ہوئے ان غلاموں کو نہیں بھول پایا تھا جنھیں زنجیروں میں جکڑ کر بیچا جا رہا تھا۔
وہ غلامی کے خلاف آواز اٹھانا چاہتا تھا لیکن اس کی اپنی جماعت وگ پارٹی اس کے ساتھ نہیں تھی۔
اس کے ووٹرز بھی اس کے خیالات کی وجہ سے اسے ناپسند کرنے لگے تھے۔
سو وہ مایوس ہو کر سیاست سے الگ ہو گیا۔
اور صرف وکالت پر دھیان دینے لگا۔
فارغ وقت وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزارتا تھا لیکن اپنے باپ اور سوتیلی ماں کو تو جیسے وہ بالکل بھول چکا تھا۔
زندگی شاید ایسے ہی گزر جاتی کوئی ابراہم لنکن کو جانتا تک نہ ہوتا۔
لیکن ہوا یوں کہ جب لنکن سیاست چھوڑ رہا تھا تو اس وقت امریکہ میں ایک بحث زوروں پر تھی۔
وہ یہ کہ سیاہ فاموں کی غلامی ختم کی جائے یا نہیں۔
امریکہ ان دنوں دو واضح حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔
ایک طرف امریکہ کی جنوبی ریاستیں تھیں جن کی اکانومی کا انحصار کھیتی باڑی، ایگریکلچر پر تھا۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جنوبی ریاستوں کے لوگ کھیتی باڑی اور فارمز کے کام کے لیے ملازم نہیں سیاہ فام غلام رکھتے تھے۔
بدلے میں غلاموں کو مستقل رہائش اور کھانا مہیا کیا جاتا تھا۔
ان چوبیس گھنٹے کے غلاموں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے تھے۔
اس لیے جنوبی ریاستوں کے زمینداروں کو سیاہ فام غلام، سفید فام مزدوروں کے مقابلے میں بہت سستے پڑتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ جنوبی ریاستوں کے لوگ غلامی کو ختم نہیں کرنا چاہتے تھے۔
لیکن دوسری طرف شمالی ریاستیں تھیں جہاں ایک طرف صنعتی انقلاب آ چکا تھا، انڈسٹریل ریولوشن آ چکا تھا۔
کھیتوں کی جگہ تیزی سے فیکٹریاں لگ رہی تھیں
فیکٹریوں میں سفید فاموں کی بڑی تعداد جابز کرتی تھی جس سے ایک مڈل کلاس جنم لے رہی تھی۔
اس کلاس کا اپنا مفاد بھی اب کھیت سے نہیں فیکٹری سے جڑ چکا تھا۔
اگر ان شمالی ریاستوں میں بھی فیکٹری مالکان کو غلام رکھنے کی اجازت مل جاتی
تو فیکٹری کا مالک سفید فاموں کو نکال کر مفت کے سیاہ فام غلام رکھ سکتا تھا۔
جس سے ظاہر ہے سفید فام بڑی تعداد میں بے روزگار ہو جاتے۔
چنانچہ ایک تو اخلاقی اصولی موقف تھا اور دوسرا یہ معاشی مسئلہ بھی تھا
جس کی وجہ سے شمالی ریاستوں میں رہنے والے زیادہ تر سفید فام غلامی کو قانونی طور پر پورے امریکہ سے ختم کرنا چاہتے تھے۔
سو اٹھارہ سو پچاس کی دہائی میں شمالی ریاستوں میں غلامی کی مخالفت اور جنوبی میں غلامی کی حمایت شدت اختیار کر گئی۔
ہوتے ہوتے یہ شدت اتنی بڑھی کہ اس معاملے پر خون خرابہ ہونے لگا۔
اٹھارہ سو پچاس کی دہائی میں امریکہ میں خانہ جنگی کا آغاز ہو چکا تھا۔
غلامی کے حامی اور مخالف دونوں اب بحث مباحثے سے اگے بڑھ کر ایک دوسرے کی جانیں بھی لینے لگے تھے۔
غلامی کی حمایت اور مخالفت دونوں کے لیے بابئل سے حوالے دئیے جاتے تھے۔
یہی وہ حالات تھے جن میں لنکن نے وکالت کی فائلیں ایک طرف رکھیں اور سر بازار آ گیا۔
بازار میں ایک ہجوم تھا اور لوگ ڈیموکریٹ سینیٹر سٹیفن ڈگلس کی تقریر سن رہے تھے۔
سینیٹر ڈگلس غلامی قائم رکھنے کے حق میں بول رہا تھا۔
وہ سیاہ فاموں کو سفید فاموں کے برابر کا انسان نہیں سمجھتا تھا۔
وہ کہہ رہا تھا سفید فام امریکیوں کا حق ہے کہ ہر ریاست میں وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کریں کہ انھیں سیاہ فام غلام رکھنے ہیں یا نہیں رکھنے۔
جب سٹیفن ڈگلس دھواں دھار تقریر ختم کر چکا تو لنکن آگے بڑھا۔
اس نے وہاں جمع لوگوں سے کہا کل میں تمہیں بتاؤں گا کہ اس شخص سینیٹر ڈگلس کے دلائل کتنے بھونڈے اور بے وزن ہیں۔
اب سپرنگ فیلڈ میں لوگ لنکن کو جانتے تو تھے ہی، سو وہ اگلے دن تقریر سننے آ گئے۔
لنکن تین گھنٹے تک بولتا رہا اور غلامی کے خلاف دلائل دیتا رہا۔
اس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ڈگلس کی دلیل صرف ایک صورت میں درست ثابت ہو سکتی ہے اگر آپ سیاہ فاموں کو انسان ماننے سے ہی انکار کر دیں۔
لیکن اگر آپ انھیں انسان سمجھتے ہیں تو پھر کسی ایک انسان کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ دوسرے کو غلام رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرے۔
سیاہ فام بھی انسان ہیں اور آزاد ہیں۔
لنکن کی دلائل بہت سے لوگوں کے دلوں کو چھو گئے۔
جس کے بعد تو ایک سلسلہ سا چل پڑا اور لنکن جگہ جگہ غلامی کے خلاف تقریریں کرنے لگا۔
غلامی کے مخالفین میں وہ تیزی سے مقبول ہونے لگا تھا۔
ان دنوں لنکن کی پرانی وگ پارٹی ختم ہو رہی تھی اور امریکہ میں غلامی کے مخالف سیاستدانوں نے
ریپبلکن پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت تشکیل دی تھی۔
لنکن اس چماعت میں شامل ہو گیا۔
اٹھارہ سو اٹھاون میں اس نے اسی پارٹی سے ایک بار پھر سینیٹرشپ کا الیکشن لڑنے کی کوشش کی۔
اس کے مقابلے میں اس کا وہی پرانا حریف سٹیفن ڈگلس تھا۔
لنکن نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے مخالف سے براہ راست ڈبیٹ کر کے، مباحثہ کر کے اسے شکست دے گا۔
یہ سوچ کر اس نے ڈگلس کو مباحثے کا چیلنج دے دیا۔ ڈگلس نے یہ چیلنج قبول کر لیا۔
لنکن اور ڈگلس کے درمیان ایلانائے کے مختلف شہروں میں تین، تین گھنٹے کے سات مباحثے ہوئے۔
ایک طرف پانچ فٹ چار انچ کا موٹے پیٹ والا ڈگلس اور دوسری طرف چھے فٹ چار انچ کا دبلا پتلا لنکن۔
جب دونوں آمنے سامنے سٹیج پرآتے تو لوگ ان کی قامت کا فرق دیکھ کر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔
لوگ ڈگلس کو لٹل جائنٹ اور لنکن کو لانگ ایب کے نام سے پکارنے لگے تھے۔
ان کے مناظرے، ڈبیٹس اتنی مشہور ہو رہی تھیں کہ ہزاروں لوگ انھیں دیکھنے پہنچ جاتے ساتھ میں پھیری والوں کی بھی چاندی ہو جاتی۔
وہ ڈگلس اور لنکن کے ناموں والے بیجز فروخت کر کے پیسے کماتے۔
ان مشہور مناظروں کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ تو آ ہی رہے تھے لیکن چپکے چپکے ایک اور انقلاب بھی کام کر رہا تھا
تو مائی کیورئس فیلوز، یہ انقلاب تھا ٹک ٹک ٹک ۔۔۔ میڈیا۔
پرنٹ جرنلزم
اس وقت ٹیلی گراف ایجاد ہو چکا تھا اور اب پورے امریکہ میں خبریں ریل کی رفتار سے نہیں تار کی رفتار سے پہنچ جاتی تھیں۔
رپورٹرز شارٹ ہینڈ میں چھوٹی چھوٹی خبریں تک لکھ لیتے تھے اور ٹلیگراف مشین سے ٹک ٹک کر کے دفتر پہنچا دیتے تھے۔
جہاں چھاپہ خانے سے خبر چھپ کر اگلے ہی دن پورے امریکہ میں پھیل جاتی تھی ریلوے کے زریعے
کیمرہ بھی ایجاد ہو چکا تھا، جس سے لی گئی تصاویر بھی اخبارات میں چھپتی رہتی تھیں۔
یہ دنیا میں ایک نئی چیز تھی۔
اس نے لنکن کے غلامی کے خلاف دلائل اور مناظروں کے دلچسپ واقعات کو پورے امریکہ میں پھیلانا شروع کر دیا۔
غلامی کے حامی ڈگلس کی باتیں اور غلامی کے مخالف لنکن کے دلائل مزے لے لے کر پڑھتے
اور ایک دوسرے سے سیاسی نوک جھوک میں استعمال کرتے۔
اسی دوران سینٹرشپ کا الیکشن ہوا تو ابراہم لنکن، ڈگلس سے ہار گیا۔
لیکن ہار کے باوجود اب اس کا نام سیاہ فاموں کی غلامی کے خلاف پورے امریکہ میں ایک علامت بن چکا تھا۔
وہ اتنا مقبول ہو چکا تھا کہ امریکی صدارتی امیدوار کے طور پر کہیں کہیں اس کا نام لیا جانے لگا تھا۔
ظاہر ہے حال ہی میں سینٹرشپ کا الیکشن ہارنے والا شخص اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
مگر یہ تصور اسےجلد ہی کرنا پڑا
کیونکہ پہلے اس کی ریاست الانائے نے اسے صدارتی امیدوار ڈکلیئر کر دیا۔
پھر شکاگو کے نیشنل کنونشن میں بھی اس کا نام بطور امریکی صدارتی امیدوار سنجیدگی سے لیا گیا۔
اور یہی وہ جگہ تھی جہاں اصل میں فیصلہ ہونا تھا کہ ریپبلکن کا صدارتی امیدور کون ہو گا؟
نئی نئی پارٹی تھی اسے کوئی ایسا امیدوار چاہیے تھا جس پر وہ جیت کے لیے داؤ لگا سکیں کیونکہ پیچھلا صدارتی الیکشن وہ ہار چکے تھے۔
اب وہ ہر قیمت پر وائٹ ہاؤس میں اپنا صدر دیکھنا چاہتے تھے۔
لنکن کے نام پر شکاگو کنونشن میں بحث ہوئی،
کچھ دوسرے امیدواروں پر بھی بات ہوئی، لیکن لنکن کی خوبی یہ تھی کہ کوئی بھی اس کے خلاف نہیں تھا۔
سو بحث مباحثے کے بعد اتفاق ہو گیا اور ایک ناکام ترین بزنس مین، ناکام عاشق اور ناکام سینیٹر امریکی صدارتی امیدوار نامزد کر دیا گیا۔
جب یہ نامزدگی ہوئی تو ابراہم لنکن اس اجلاس میں شریک ہی نہیں تھا۔
وہ سیکڑوں میل دور گھر میں بیٹھا ہینڈ بال کھیل رہا تھا۔
جب اس کے علاقے میں یہ خبر پہنچی تو مبارکباد دینے والوں کا ہجوم اس کے گھر کے سامنے جمع ہو گیا۔
لوگ خوشی سے نعرے لگا رہے تھے۔
ریپبلکنز کی نامزدگی دراصل الیکشن جیتنے جیسا ہی معاملہ تھا۔
کیونکہ اس کے مقالبلے میں ڈیموکریٹس کوئی ایک متفقہ امیدوار نہیں لا سکے تھے۔
اس کے مقابلے میں ڈیموکریٹس پارٹی ہی کے دو امیدوار تھے،
ایک اس کا پرانا مخالف سینیٹر سٹیفن ڈگلس اور دوسرا جنوبی ریاستوں سے جان بریکن رج۔
ڈیموکریٹس کی اس تقسیم نے لنکن کو بہت فائدہ دیا۔
چھے نومبر اٹھارہ سو ساٹھ کو الیکشن ہوئے۔
پورے امریکہ میں ووٹنگ ہو رہی تھی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوبی ریاستوں میں لنکن کی معمولی سی بھی حمایت نہیں تھی۔
حتیٰ کہ اس کا نام تک بیلٹ پیپر پر موجود نہیں تھا۔
اس کے باوجود جب نتائج آئے تو لنکن جیت گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے ووٹس ڈیموکریٹس کے دونوں امیدواروں کے مجموعی ووٹس سے تین لاکھ کم تھے۔
لیکن ظاہر ہے وہ تقسیم تھے، ڈیوائڈڈ تھے۔
امریکی الیکشن فارمولے کے مطابق لنکن اٹھارہ ریاستوں کے ایک سو اسی الیکٹورل ووٹس جیت کر نیا صدر منتخب ہو چکا تھا۔
ادھر لنکن صدرمنتخب ہوا ادھر امریکہ دو ٹکڑے ہو گیا۔
جنوبی ریاستیں جو غلامی قائم رکھنا چاہتی تھیں انھوں نے لنکن کے جیتنے پر بغاوت کر کے آزادی کا اعلان کر دیا۔
کنفیڈریٹ سٹیٹس آف امریکہ کے نام سے اپنا الگ ملک بنا لیا،
الگ جھنڈا اور اسمبلی بنا کر سینیٹر ڈیوس کو نئے امریکہ کا صدر بنا لیا گیا۔
وقت نے لنکن کو حلف اٹھانے سے پہلے ہی امریکی تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج سونپ دیا تھا۔
مگر اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اسے پہلے حلف اٹھانا تھا۔
جس کے لیے سپرنگ فیلڈ سے سولہ سو چون میل دور واشنگٹن ڈی سی پہنچنا تھا۔
لیکن ڈیڑھ ہزار میل لمبے راستے میں غلامی کے حامیوں، لنکن کے مخالفوں کے گروہ تھے۔
انھوں نے لنکن کو دھمکی دی کہ اگر اس نے استعفیٰ نہ دیا اور حلف لینے واشنگٹن آیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔
اس زمانے میں ہوائی جہاز تو تھے نہیں، بھاپ سے چلتے انجنوں والی ریل گاڑی سے ہی جانا تھا
راستے میں اس کے جانی دشمن ہتھیار سنبھالے بیٹھے تھے۔ پھر کیا ہوا؟
لنکن واشنگٹن کیسے پہنچا؟
ابراہم لنکن صدارتی کرسی سنبھالنے کے بعد غلامی ختم کرنے کے وعدے پر کتنی سنجیدہ سے قائم رہا؟
یا پھرمصلحت پوشی کا شکار ہو گیا؟
میڈیا اس کے خلاف کیوں ہوا؟
اور لنکن نے اپنے آرمی چیف سمیت کئی جرنیلوں کوکیوں برطرف کر دیا
وہ کیا فیصلہ تھا جس نے لنکن کو تاریخ کے عظیم لیڈروں کی فہرست میں کھڑا کر دیا؟
تو دوستوں یہ سب ہم آپ کو دکھائیں گے لیکن لنکن کون تھا کے دوسرے حصے میں جس کے لیے آپ یہاں کلک یا ٹچ کیجئے
یہاں جانئے امریکی تاریخ کا وہ واقعہ جس پر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ لکھی گئی
اور یہاں دیکھئے کہ انسان مریخ پر آخر رہے گا کیسے؟
0 Comments